فیریا دے سیبیجا  (فیریا دے ابریل دے سیبیجا، سیبیجا اپریل فیئر)تحریروتحقیق۔سید ایاز حسین

اندلس کا  مشہور و معروف میلہ اس کے دارلحکومت "سیبیجا  ” میں ” فیریا دے سیبیجا”  کے نام سے ہر سال اپریل کے مہینے میں منا یا جاتا ہے۔ ایک ہفتہ دورانیہ کے میلہ میں مشہورِ لوک رقص ” فلیمینکو”،  بُل فائٹنگ، گھوڑے ،اس علاقے کی مشہور شراب  "شیری” ، 

روشنیوں  سے جگماتا اور خوشنما رنگوں کے  حسین امتزاج سے سجا شہر  یہ سب کچھ اس  تہوار میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مقامی    مرد و عورت  شاہانہ لباس زیبِ تن کیے، بگھیوں میں سوار ہو کر میلہ کے لیے   مختص   سڑکوں  کی   سیر کرتے ہیں۔  ابتدا میں اس  کا آغاز  ” میلہ مویشیاں  اور زرعی اجناس "کے طور پر ہی ہوا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ میلہ دیکھنے اور دکھانے کی چیز بن چکا ہے۔  

یہ میلہ اٹھارہ سو چھیالیس (1846) سے مسلسل منعقد کیا جارہا ہے ۔سال دو ہزار تیئس میں  یہ میلہ تیئس اپریل سے انتیس اپریل تک جاری رہا اور سال دوہزار چوبیس کے میلہ کا دورانیہ چودہ اپریل سے بیس اپریل تک ہوگا۔   ” فیریا دے سیبیجا” کے منعقد ہونے کی کوئی   مخصوص تاریخ نہیں ہے، دراصل اس کا تعین ” مقدس ہفتہ یعنی سیمانا سانتا”  (ایسٹر)کی تاریخوں  سے کیا جاتا ہے  ۔ یہ میلہ ، سیمانا سانتا یعنی ایسٹر کے ٹھیک دو ہفتوں بعد منعقد کیا جاتا ہے۔  مثلاً سال دو ہزار تیئس میں  سیمانا سانتا دو اپریل کو شروع ہوا اور نو اپریل کا ختم ہو تھا لہذا فیریا کا دورانیہ   تیئس اپریل سے انتیس اپریل تک رہا۔  اسی طرح سال دو ہزار چوبیس  میں سیمانا سانتا   چوبیس مارچ سے اکتیس مارچ تک ہوسکتاہے  اس لیے  فیریا چودہ اپریل سے  بیس اپریل تک منعقد ہوگا۔

 مخصوص طرز کے  رہائشی خیمے  ،جنہیں” کاسیتا” کہا جاتا ہے  ،احاطہ میں عارضی طور پر  نصب کردیے جاتے  ہیں ۔ یہ خیمے انفرادی بھی ہوتے ہیں اور بہت سے دوست، ایسوسی ایشنز وغیرہ مل کر  نہایت خوبصورت  رنگوں سے مزین  "کاسیتا” قائم کرلیتے ہیں۔ شام ڈھلتے ہی  اور اگلی صبح تک   لوگ  پہلے میلہ کی گلیوں میں اور بعد میں   ہر ” کاسیتا” میں    کھاتے پیتے اور ناچتے گاتے ہیں  اور علاقے کی مخصوص شراب "شیری” سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

روایتی طور پر میلہ کا افتتاح اتوار کی صبح سے ہوتا ہے تاہم حقیقتاً ہفتہ -اتوار کی رات سے ہی موج مستیاں شروع ہوجاتی ہیں اور   اس تہوار کا مخصوص عشائیہ  "پیسکاایتو”ہفتہ کی رات کو ہی عظیم الشان طریقہ سے منظم کیا جاتا ہے۔  اس رات کو  "پیسکاایتو کی رات یعنی فش کی رات  ”  کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دراصل "پیسکاایتو” کا آغاز   ضرورت کے تحت ہوا تھا۔وہ لوگ جو "میلہ  مویشیاں  اور زرعی اجناس ” میں حصہ لیتے تھے  اپنے کام کاج سے دیر سے  فارغ ہوتے تھے  اور اس وقت کھانے کی کوئی شے دستیاب نہیں ہوتی تھی سوائے   ڈبوں میں محفوظ مچھلی   کے جو نزدیکی مارکیٹ  سے بآسانی مل جاتی تھی۔  اس کھانے کے مینو میں، سؤر کا گوشت اور بہت سے دوسرے گوشت پنیر کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔ سی فوڈ کے ہمراہ فرائڈ فش لازمی ہوتی ہے بتدریج یہ مینو اس میلہ کا مخصوص کھانا اور سب سے اہم  بھی متصور کیا جانے لگا ۔  تمام مرد حضرات کوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہوتے ہیں  اور خواتین شام کا مخصوص لباس زیب تن کیے ، کاندھوں پر شال لٹکائے اور اونچی ایڑی کے سینڈل پہنے اس مخصوص عشایہ میں شرکت کرتی ہیں ۔ اس عشا ئیہ میں  بہت ہی خاص دوستوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ قرب و جوار میں واقع  ریسٹورنٹس بھی اسی طرح کے  عشائیہ کا اہتمام کرتے ہیں ۔

 میلہ کا دوسرا اہم ترین جز  ( آلوم براؤ) یعنی ”  لائٹس  کا آن "کیا جا نا ہے جو دراصل میلہ کا سرکاری افتتاح ہے۔  تمام شرکاء رات  کے بارہ بجنے کا  بے چینی سے انتظار کرتے ہیں ۔ اس وقت  شہر کا میئر دو لاکھ بیس ہزار لائٹس بلب جو داخلہ کی جگہ اور میلہ کی مختص جگہ کی پندرہ گلیوں میں آویزاں کیے  گئے ہوتے  ہیں بٹن دبا کر  روشن کردیتا ہے   ۔   تاریکی میں ڈوبا  میلہ  یکدم  جگمگا اٹھتا ہے  اور شائقین کا جوش و خروش بڑھ جاتا ہے۔

بگھّیوں  کے علاوہ کسی اور  گاڑی کا داخلہ  میلہ کے احاطہ میں ممنوع ہے۔ یہ روایت ابتدا ہی سے جاری ہے  کیونکہ اُس وقت   بیوپاری لوگ گھوڑا گاڑی میں سفر کرتے اور اس میلہ میں شرکت کرتے تھے۔ بہت ہی خوبصورت گھوڑا گاڑی/ بھگیاں  دیکھنے کو ملتی ہیں کیونکہ اکثر مالکان  ترجیحی بنیادوں پر آپس میں مقابلہ کرتے ہیں۔  گھوڑا گاڑی،  اصلی نسل کے گھوڑے اور اُن پر سجے  زیوارات، گاڑی بان/کوچوان اور مسافروں کے لباس قابلِ دید ہوتے ہیں ۔ بھگّیاں دوپہر بارہ بجے سے رات آٹھ بجے تک ہی استعمال کی جاسکتی ہیں اور مخصوص سڑکوں  پر ہی چلائی جاسکتی ہیں۔ کچھ بھگّیاں شائقین کو  "بُل رنگ” تک بھی لے جاتی ہیں۔ میلہ کے دورانیہ کی بُل فائٹنگز   جو روزآنہ منعقد کی جاتی ہیں سیزن کی بہترین  بُل فائٹنگ تصور کی جاتی ہیں۔

میلہ کا اختتام  بھی رات بارہ بجے ہی ہوتا ہے اور فقیدالمثال آتش بازی کے مظاہرہ  کے بعد شرکاء اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔میلہ میں دن کی مصروفیات بالکل ہی مختلف ہوتی ہیں، خاندان کے بزرگ اور جوان اپنے اپنے  خیموں میں سکون سے بیٹھے گپ شپ کرتے ہیں، مزیدار قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں  جب کہ چھوٹے بچے میلہ میں لگے جھولوں  پر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔   سورج غروب ہوتے ہی  میلہ کا روپ تبدیل ہوجاتا ہے ، شراب کی فراوانی ہوتی ہے اور مختلف پارٹیوں کے شور سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔ یہ پارٹیاں رات گئے تک جاری رہتی ہیں۔

میلہ کے دورانیہ کی مصروفیات کچھ اس طرح ہوتی ہیں:

ہفتہ کی رات: کاسیتا کے ممبران  مخصوص عشائیہ "پیسکا ایتو” کا اہتمام کرتے ہیں۔ پیسکا ایتو کا مطلب ” چھوٹی مچھلی” ہے۔

اتور : ہفتہ  اتور کی درمیانی رات  ٹھیک بارہ بجے  سیبیجا   کا میئر  میلہ کی لائٹس آن کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہزاروں  لٹکی ہوئی لالٹین  بھی روشن کردی جاتی ہیں۔

سوموار:  لوگوں کی تعداد کم  ہوجاتی ہے  تاہم لائٹس رات تین بجے تک آن رہتی ہیں۔

منگل:  دوستوں، عزیزوں اور ملازمین کے لیے دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔  لائٹس رات چار بجے تک آن رہتی ہیں۔

بدھ: یہ میلہ کا  ایک اہم دن ہے اور تماشائیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس دن عام تعطیل  ہوتی ہے۔  اس رات لائٹس  صبح پانچ بجے تک آن رہتی ہیں۔

جمعرات: اس دن بہت سی اہم شخصیات، بُل فائٹرز،  سیاستدان    وغیرہ بھی شرکت کرتے ہیں ۔ اس دن تماشائیوں کی تعداد  دس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔

جمعہ:  اس دن لائٹس  صبح چھ بجے تک آن رہتی ہیں۔

ہفتہ: میلہ کا آخری دن عموماً "بُل  فائٹنگ” کے لیے مخصوص ہوتاہے۔  آدھی رات کو میلہ کا اختتام ہو تا ہے اور  آتش بازی کا شاندار مظاہرہ دریا "گوادر کبیر” کے کنارے کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے